جب موت میرے سرہانے بیٹھی اصرار کررہی تھی
جو میں نے دیکھا سنا اور سمجھا
شیخ الوظائف کی بیماری کی کہانی خود ان کی زبانی
16 مارچ2020ء عبقری لاہور سےعبقری حویلی احمدپور شرقیہ کے لیے نکلا ‘ پتہ چلا کہ لاک ڈاؤن ہوگیاہے توسوچا کیوں نہ عبقری حویلی وقت گزاروں‘ وہاں کی مصروفیات‘ ذمہ داریاں اپنے ذمے خود لے لیں‘ فارغ بیٹھنا پہلے دن سے نہ والدین نے سکھایا‘ نہ بڑوں نےاور نہ ہی مرشد نے سبق دیا‘ وہاں کی تعمیری ذمہ داریاں‘ مسلسل ٹی وی پروگرام‘ ملاقاتیں بھاگ دوڑ‘ ادھر جنوبی پنجاب کی گرمی اور میرا آبائی شہر جو صدیوں پرانا تاریخی شہر ہے‘ اس کی گرمی کچھ زیادہ ہوتی ہے‘ کیونکہ وہاں نایاب آموں کی نسلیں ہیں اگر گرمی نہ ہو تو آم کیسے پکیں؟ قدرت کا نظام ہے‘ قدرت نے اپنا سچا نظام چلانا ہے اور قدرت کے ہرمعاملے میں خیر ہے۔ پھر اوپر رمضان آگیا‘ رمضان کی گرمی صرف پانی ہی پلاتی ہے‘ کھلاتی تو کچھ نہیں ہے‘ دن رات کی مشقت اور وہی پھر سابقہ ذمہ داریاں‘ مسلسل ٹی وی پروگرام‘ مجمع‘ ان کی تربیت احوال‘ یہ نظام پورا رمضان چلتا رہا‘ احساس نہ ہوا لیکن اندر ہی اندر نچڑتا رہا‘ گھلتا رہا اور کھوکھلا ہوتا رہا‘ بس حویلی میں نماز عید پڑھی‘ والدین کے مزارات پر حاضری اس کے بعدگھر آکر گرگیا‘ تحقیق نے کورونا کو تو نمودار نہ کیا لیکن اندر بے شمار روگ ایک سے بڑھ کر دوسری تکلیف بیدار ہوتی چلی گئی‘ پوری زندگی میں اتنا آج تک مریض نہ ہوا نہ بیمار ہوا‘ اللہ کا امر غالب ہے اس میں خیر ہوگی بس پھر ہفتوں بستر پر‘ روحانی علاج بھی‘ دوائی بھی سنت سمجھ کر بھرپور کی۔
میری نبضیں ٹوٹ رہی تھیں!
ایک وقت ایسا آیا جس پر مجھے ایک واقعہ یاد آیا حکیم محمد شریف جگرانویؒ کینٹ لاہور میں بیٹھتے تھے بہت نیک‘ مخلص اور سینکڑوں مریض روزانہ دیکھتے تھے‘ فجر کی نماز کے بعد بیٹھے مریض دیکھ رہے تھے اچانک طبیعت میں کچھ گھبراہٹ سی پیدا ہوئی اپنی نبض خود دیکھی فرمانے لگے: وقت آگیا ہے اور یوں اس دنیا سے کوچ کرگئے۔تیس سال سے زیادہ مجھے بھی نبضیں دیکھتے ہوگیا ہے وہ آخری لمحہ تھا جب میں اپنی نبضیں دیکھ رہا تھا میری نبضیں ٹوٹ رہی تھیں‘ سچ پوچھیں میں بالکل مطمئن تھا کہ اللہ کے حضور حاضری ہے‘ اپنی کوئی نیکی‘ عبادت‘ تقویٰ اورطہارت سامنے نہیں‘ بس اللہ کی رحمت ‘ٹوٹی پھوٹی مخلوق کی خدمت اور مخلصین کی دعائیں جو میری بخشش کا سامان تھا‘ ہاں صرف ایک فکر تھی ‘ ناںبیوی بچوں کی‘ ناں عبقری کی‘ ناں اپنے کاروبار کی بالکل نہیں صرف ایک ہی فکر تھی کہ تسبیح خانہ کا کیا بنے گا؟ پھر اچانک میری زبان سے ایک لفظ نکلا فی امان اللہ فی جوار اللہ۔ اے اللہ وہ بھی تیرے حوالے یہ بھی تیرے حوالے۔ تو جان تیرا کام جانے ‘میری ڈیوٹی اتنی تھی میں کرگیا اب تیری طرف واپسی ہے بس اپنی رحمت سے خاتمہ بالخیر کردینا۔ نہ موت کا خوف‘ نہ آنسو‘ نہ جانے کی واپسی‘ نہ جدائی‘ میرے بچے بدحواس پریشان‘ میرے اردگرد کھڑے تھے لیکن میرے دل میں بس صرف ایک کیفیت تھی وہ یہ تھی کہ اس کی رحمت سے ہی سب کچھ ہوگا‘ اپنی نبضوں کو ٹٹول رہا تھا اور نبضیں ساتھ نہیں دے رہی تھیں اور پیغام دے رہی تھیں کہ واپسی ہے۔
شکر ہے اللہ نے بڑی بیماری میں مبتلا کیا کسی بڑے گناہ میں نہیں
لیکن اس کے فیصلے کچھ اور تھے شاید اس نے مجھ سے ابھی انسانیت کے لیے خیر کا کام لینا ہے‘ لوگوں کے دکھ ‘درد‘ مشکلات‘ مسائل‘ پریشانیاں اور الجھنوں کے حل کیلئے مجھے اللہ نے ذریعہ بنانا ہے‘ اللہ تعالیٰ میرے جذبے اور نیت ہمیشہ سچی رکھے۔اس لیے زندگی اور صحت کی طرف آہستہ آہستہ قدم بڑھنے لگے ۔ ان چند ہفتوں کی بیماری میںایک چیز کا احساس ہوا کہ مجھ پر روحانی دنیا اور روحانی کیفیات بہت کھلیں بہت اشارے ملے بہت کچھ ملا۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں سے علم ملا‘ میں میری تنہائی‘ بیماری‘ درد‘ تکلیف لیکن اس کا ذکر اور شکرمیری زبان پرتھا۔ حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ وہ عظیم اولیاء اللہ میں سے ہیں جن کو تمام ہستیوں کی زیارت ہوتی تھی لیکن کئی بار خود اللہ کا دیدار بھی ہوا‘ ایک دفعہ بیمار ہوگئے اور بہت ہوئے‘ تو کسی نے پوچھا حضرت اتنی بیماری‘ آپ تو اللہ والے ہیں۔ ٹھنڈی سانس لے کر فرمانے لگے شکر ہے اللہ نے اتنی بڑی بیماری میں مبتلا کردیا کسی اتنے بڑے گناہ میں مبتلا نہیں کیا۔ پھر اب تک اللہ نے راحتیں ہی راحتیں دی ہیں‘ اب اگر اللہ نے تھوڑی سی تکلیف دی ہے تو اس پر کیا شکوے کروں‘ اور اس کی شکایات کروں۔
دوران بیماری ایک شعرجو میری زبان پر رہا
دوران بیماری ایک شعر اکثر میری زبان پر آتا رہا جو اکثر میں درس کے دوران پڑھتا ہوں
ؔلطف سجن دم بدم قہر سجن گاہ گاہ
اِیں وی سجن واہ واہ اُوہ وی سجن واہ واہ
یعنی سجن (اللہ تعالیٰ) کا لطف تو ہر پل ہرقدم ہر لحظہ ہے لیکن کبھی اگر قہر یعنی آزمائش آجائے تو بھی واہ واہ ہونی چاہیے اللہ تعالیٰ ہمیں آزمائش سے بچائے‘ انسان آزمائش مانگے نہیں‘ چاہے نہیں‘ اگر آجائے تو پھر صبر اور اعمال کی زندگی کی طرف متوجہ ہوجائے‘ بہت انوکھے لمحے گزرے‘ ان انوکھے لمحات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ‘ حضرت علی کرم اللہ وجہہ‘ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ‘ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ اور حضرت زین العابدین ؓ کی اہل بیتؓ اور صحابہؓکے قافلے کےساتھ زیارت بھی ہوئی۔ ان کی منشاء کے بعد میں نے اپنی مونچھیں صاف کرنا چھوڑ کر ان کو ہلکا سابڑھا لیا‘ (یہ پورا خواب ہے‘ جو آپ اکابر پر اعتماد فیس بک پیج کی پوسٹ میں تفصیلاً پڑھ لیں گے۔ www.facebook.com/akabir par aitmad اس پیج پر جاکر پوسٹ نمبر 441 دیکھ لیجئے اور ضرور دیکھئے بہت روحانی راز ملیں گے۔)قارئین! موت تو اٹل حقیقت ہے‘ ابھی ٹل گئی تو پھر آجائے گی لیکن سچ یہی ہے کہ اگر انسان زندگی میں ایسے لمحات گزارے جس میں اس کے لیے اپنا کچھ نہ ہو جو کچھ بھی ہو مخلوق کے لیے ہو اور لوگوں کی راحت‘ انسانیت مسلم ہیں یا غیرمسلم ‘جس طبقے سے ہیں ان کی راحت پیش نظر ہو تو پھر کوئی پشیمانی یا پریشانی نہیں ہوتی کہ میری ذمہ داری اور ڈیوٹی تھی میں کرکے جارہا ہوں۔ موت کے آخری لمحات کچھ ایسی کیفیت میرے ساتھ تھی۔ اللہ تعالیٰ میری ان کیفیات کو سچائی اور خلوص عطا فرمائے۔ میں ہرپل آپ کی دعاؤں کا محتاج ہوں۔میں ان حضرات کا بہت مشکور ہوں جنہوں نے میری بیماری کے دوران دعائیں کیں‘ صدقات کیے اور اعمال کیے۔ اس کا صلہ صرف اللہ ہی آپ کو دے سکتا ہے۔ ایک انوکھی چیز جو میں آپ کو بتانا چاہوں گا اس ساری بیماری کےدوران میرے گزشتہ چالیس سال کے صبح و شام کے مسنون اذکار معمولات تسبیحات سب ختم ہوگئے‘ میری زبان بند ہوگئی‘ میں کچھ پڑھنا چاہتا تھا‘ بولنا چاہتا تھا لیٹے لیٹے کچھ نہیں پڑھ سکتا تھا جیسے قدرت کی طرف سے ہر چیز ختم ہوگئی صرف دعائے کعبؓ میری ز بان پر تھی دن رات یہی پڑھتا تھا )
درد اور تکلیف کی وجہ سے نیند نہیں آتی تھی اگر کبھی جھٹکا نیند کا لگتا بھی تھا تو یہی دعائے کعب میری زبان پر ہوتی تھی ہفتوں میں نے یہی پڑھی کتنی پڑھی ہوگی بے شمار گمان سے باہر‘ پھر خیال آیا کہ اللہ کا امر یہی تھا وقت کی ضرورت یہی تھی کیونکہ کعب بن احبار رضی اللہ عنہ یہودیوں کے بہت بڑے مفتی عالم اور پیشوا تھا تو یہودی جادوگر وں نے ان پر بہت برا جادو کیا وہ جادو کیسا ہوگا آپ گمان نہیٰں کرسکتے۔ وہ خود فرماتے ہیں اگر میں یہ دعا نہ پڑھتا تو نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ یہودی جادوگر مجھے گدھا بنادیتا‘ گدھے سے مراد یہ ہے کہ یاتو اصلی گدھا بنا دیتے کہ میری حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ نہ اصل نہ عقل نہ شعور نہ احساس جیسے نعوذ باللہ چلتا پھرتا جانور ہے۔ پھر احساس ہوا کہ یہ دجالی فتنوں کے دور کی زبردست دعا ہے اور اللہ نے میری بیماری کے دوران میری زبان پر بس یہی دعا جاری کردی۔ آپ تمام پڑھنے والوں کو بھی اس کی اجازت ہے۔
اور اس کے علاوہ یہی دعا جادو‘ جنات‘ پرانی بیماریوں اور سخت نظربد کا بھی آخری یقینی آزمودہ اور پرتاثیر علاج ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں